☆اردو غزل☆
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
☆بیانِ حال مفصّل نہیں ہوا اب تک☆
☆جو مسئلہ تھا وہی حل نہیں ہوا اب تک☆
☆
☆نہیں رہا کبھی میں تیری دسترس سے دور☆
☆مِری نظر سے تُو اوجھل نہیں ہوا اب تک☆
☆
☆بچھڑ کے تجھ سے یہ لگتا تھا ٹوٹ جاؤں گا☆
☆خدا کا شکر ہے پاگل نہیں ہوا اب تک☆
☆
☆جلائے رکھا ہے میں نے بھی اک چراغِ امید☆
☆تمہارا در بھی مقفّل نہیں ہوا اب تک☆
☆
☆مجھے تراش رہا ہے یہ کون برسوں سے☆
☆مِرا وجود مکمل نہیں ہوا اب تک☆
☆
☆دراز دستِ تمنّا نہیں کیا میں نے☆
☆کرم تمہارا مسلسل نہیں ہوا اب تک☆
☆●☆
————– جہانگیرنایاب
0 Comments