پانی سے گاڑی چلانے والے کے ساتھ کیا ہوا
90 ءکی دہائی میں، امریکہ میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچنے کے لئے، ایک عام سے امریکی موجد، اسٹینلے میئرز نے پٹرول کے متبادل آپشن کی تلاش شروع کردی اور آخر انتھک محنت کے بعد ایک ایسی گاڑی تیار کی جو پانی پر چل سکتی تھی۔ میئرز کے مطابق، یہ گاڑی صرف 4 لیٹر پانی میں 180 کلومیٹر تک چلنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
لیکن جیسے ہی میئرز نے یہ خیال دنیا کے سامنے رکھا، انہیں کئی تیل کمپنیوں کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں اپنی ٹیکنالوجی کے تمام ثبوتوں کو ختم کرنے کے لئے دس لاکھ ڈالرکی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔
اسٹنیلےنے اپنی ایجاد کے لئے کچھ سرمایہ کاروں سے ڈیل بھی کر لی تھی ، تاکہ اپنی ایجاد کو کمرشل بنیادوں پر عام آدمی کے لئے پیش کیا جاسکے۔لیکن ایسا ہو نہ سکا
21 مارچ 1998 ہے، موسم بہار کا پہلا دن تھا، اور اسٹینلے ایک ریستوران میں کھانا کھار ہے تھے وہاں چار آدمی اور بھی موجود تھے جو اسی ریستوراں میں دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں.ایک ویٹر نے اسٹینلے کو بیری کا جوس پیش کیا ، کچھ نے کہا شاید کوئی مٹھائی پیش کی گئی تھی۔ لیکن اس کے کچھ دیر بعد اسٹنیلے ، پہلے گھونٹ کے فورا بعد، اچانک اٹھتا ہے جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو، وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن میں پکڑتا ہے، وہ اپنی سانس کھو رہا تھا ، پارکنگ میں بھاگتا ہے، زمین پر گر جاتا ہے اور اپنے آخری الفاظ کہتا ہے "انہوں نے مجھے زہر دیا"۔ اور ساتھ ہی دم توڑ دیتا ہے۔
اور آپ جانتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ حیران کن کیا ہے؟ اس کی موت کے چند دن بعد، اس کی گاڑی اور اس سے وابستہ تمام واٹر انجن کے ڈیزائن میئرز کے گیراج سے پراسرار طور پر غائب ہو جاتے ہیں ۔ بعد میں یہ کار تو مل جاتی ہے لیکن کس حالت میں ملتی ہے اس کے بارے کچھ نہیں بتایا جاتا۔شک یہ ہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس کار میں سے اس کا تحقیقی واٹر انجن اپنی اصل حالت میں نہیں تھا۔
اس کیس کے اوپر انکوائری بھی مقرر کی گئی ۔ جو کہ اسٹیو روبینیٹ کی سربراہی میں قائم کی گئی ۔ اس انکوائری نے پارکنگ میں موجود ہر شخص کی گواہی جمع کی، آخر میں رپورٹ میں لکھا گیا کے مئیرز کی موت دماغی اینوریزم کی وجہ سے ہوئی جس میں انسان کا بلڈ پریشر بہت بڑھ جاتا ہے اور صرف تین ماہ میں انہوں نے کیس کی فائل بند کر دی، اسے ایک رنگین لچکدار پٹی سے بند کر دیا اور سرورق پر لکھا کہ 'قدرتی وجوہات سے موت'۔ باضابطہ طور پر اب یہ معاملہ حل ہو چکا تھا۔
اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں تیل کے کاروبار میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری موجود تھی۔ جس میں دنیا کے بہت سے بااثر لوگ شامل تھے جو امریکی حکومت میں بھی شامل تھے اور وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ پانی سے چلنے والا کوئی انجن مارکیٹ میں آئے۔ اور ان کے اربوں ڈالرز کے کاروبار کا دیوالیہ نکل جائے ۔اس لئے پورے پلین منصوبے کے ساتھ خاموشی سے اسٹنیلے مئیرز کو راستے سے ہٹادیا گیا اور اس کی پروٹوٹائپ گاڑی بھی غائب کردی گئی۔ بعد میں اس گاڑی کے پرزے نکالنے کے بعد منظر عام پر دوبارہ رکھ دی گئی ۔ لیکن اس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ جو مئیرز نے دعوی کیا تھا یہ گاڑی اس کے برعکس تھی ۔ یہ پانی پر نہیں چل سکتی تھی اس میں کچھ کیمیکل ملا کر مئیرز اس کو چلاتا تھا۔ ظاہر ہے اس کے مرنے کے بعد آپ جو مرضی کہہ لیں وہ اس کا دلائل سے جواب دینے کے لئے دنیا میں موجود ہی نہیں۔
بہت سے سائنس دان مانتے ہیں اگر وہ ڈیزائن آج موجود ہوتے تو، تب شاید ای وی یعنی الیکٹرک وہیکلز(بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں) کبھی شائد بنتی ہی نہ ۔ اور پہلی ہائبرڈ گاڑی ٹیوٹا پریوس کو کبھی لانچ ہی نہ کیا جاتا۔ یا شائد پریوس پہلی اور آخری ای وی ہوتی۔ اس سے مین اسٹریم میڈیا میں ہلچل مچ جاتی۔
بہرحال، ایک بار جب یہ پانی کے انجن والی گاڑی کسی سازش کے تحت ختم کردی گئی ، دنیا کے بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی پانی کے انجن بنانے کی کوشش کی۔ جیسا کہ 2018 میں، ناگپور، بھارت سے انجینئرنگ کے کچھ طالب علموں نے سوزوکی ماروتی 800 سی سی میں پانی ڈال کر اس کو چلا دیا۔ انہوں نے بنیادی طور پر ماروتی 800 کے ایندھن کے ٹینک میں پانی ضرور ڈالا، اورساتھ میں کیلشیم کاربائیڈ بھی پانی کے ساتھ ملا دیا۔ اور انہوں نے گاڑی کو آتش گیر ایسٹیلین گیس پر چلانے کے لئے کیمیائی رد عمل کا استعمال کیا . اور اس طرح کے پانی کے انجنوں کی بہت سی دوسری قسمیں بھی ہیں۔ لیکن ان سب کے کچھ بنیادی مسائل تھے۔ اور یہ تین بڑے مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ، یہ ہے کہ پانی اور ایندھن کے ٹینک کا امتزاج مہلک ہے۔ کیونکہ پانی میں آکسیجن، دھات سے بنے ایندھن کے ٹینکوں کا رابطہ، ایندھن کے ٹینک میں داخل ہوتے ہی سڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور چند ہی دنوں میں، آپ کی گاڑی کے ایندھن کے ٹینک کی حالت بہت خراب ہوجاتی ہے ۔ دوسرا مسئلہ، پانی میں کیلشیم کاربائیڈ کو تحلیل کرکے، ایسٹیلین گیس کے ساتھ، کیلشیم آکسائڈ بھی بنتا ہے، جو ایندھن کے ٹینک میں ذخیرہ کیا جاتا ہے وہ اس ٹینک کو بند کر دیتا ہے۔ اور سپلائی بند ہوجاتی ہے اور تیسرا سب سے بڑا مسئلہ ایسٹیلین سے متعلق تھا۔ ایسٹیلین پانی کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے۔ اور یہ ہائیڈروجن گیس سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہے۔ اور یہ گاڑی ایک چلتا پھرتا بم تھا جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔ اور اس کے علاوہ، یہ زہریلے مادے کا بھی اخراج کرتا تھا۔ بہرحال ان وجوہات کی بنا پر یہ تجربہ بھی ناکام ہوگیا۔ اور آگے نہ بڑھ سکا۔
پاکستان کے انجنئیر آغا وقارکا کیا بنا
اسی طرح کا دعوی پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے آغا وقار نے بھی کیا تھا کہ انہوں نے پانی کے اجزا آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ایٹمز کو با آسانی الگ کرنے کا طریقہ دریافت کر لیا ہے اور اس میں توانائی کا استعمال بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔
انہوں نے اس سے پہلے سندھ کے ہی ایک وفاقی وزیر کو اپنے اس منصوبے کے بارے میں بتایا تھا۔ جس کے بعد وہ وزیر اس معاملے کو وفاقی کابینہ میں لے کر گئے جہاں اس معاملے پر بحث کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی۔
پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر میر چنگیز خان جمالی جنہوں نے آغا وقار کی واٹر کِٹ کا عملی مظاہرہ دیکھ رکھا تھا، اس تصور کو ایک انقلابی کوشش قرار دیا اور کہا کہ یہ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں اہم کرادر ادا کرے گا۔
پاکستانی میڈیا میں اس ’واٹر کِٹ‘ کے حوالےسے جذبات اس قدر بڑھ گئے کہ کئی نامور ٹی وی اینکرز جیسے جیو ٹی وی کے حامد میر اور ڈان نیوز کے طلعت حسین اور اے آر وائی نیوز کے رپورٹر اقرار الحسن نے اس نئی ایجاد کو لے کر پروگرام کیے۔ اور آغاوقار نے درجنوں لوگوں اور کیمرے کی موجودگی میں ان اینکرز کی گاڑیاں بغیر پٹرول کے اپنی فراہم کردہ کٹ ان کی گاڑیوں میں نسب کرکے اور ڈسٹلڈ واٹر کے ذریعے گاڑی چلا کردکھائی۔ جس سے یہ لوگ بہت حیران ہوئے۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن نے بھی اس واٹر کِٹ پر ایک پروگرام کیا جس میں اس ایجاد کے موجد آغا وقار احمد کو پاکستانی سائنسدان ڈاکِٹر ثمر مبارک کے روبرو بلایا گیا۔
جیو نیوز کے حامد میر نے ایک قدم اور آگے جاتے ہوئے آغا وقار کو ایک مرتبہ پھر اپنے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں مدعو کر دیا۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ پروگرام کے شرکاء میں ماہر طبیعات ڈاکِٹر پرویز ہود بھائی اور ایک جوہری سائنسدان ڈاکِٹر شوکت حمید خان شامل تھے۔ اس پروگرام میں ہود بھائی اور آغا وقار کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی ۔ اور ہود بھائی نے آغا وقار کو جھوٹا اور فراڈ کہہ دیا۔ اور کھل کر تنقید کی۔
واٹر کِٹ کو جلد ہی پاکستان میں کئی سرکاری سائنسی اداروں اور پاکستان میں جوہری پروگرام کے بانی ڈاکِٹر عبدالقدیر خان سمیت بعض قومی سائنسی شخصیات کی حمایت حاصل ہوگئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا۔کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی عام انسان بھی غیرارادی طور پر کوئی چیز ایجاد کرسکتا ہے ۔ اس طرح کی بہت ساری مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا اس پر مزید تحقیق کرنی چاہئے۔ اور آغا صاحب کے کام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
انہوں نے حامد میر کے پروگرام میں یہ بھی کہا ’میں نے اس معاملے کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں کوئی دھوکہ شامل نہیں ہے۔‘
پاکستان میں سائنس اور صنعتی تحقیق کے ادارے کے سربراہ ڈاکِٹر شوکت پرویز نے آغا وقار کی تعریف کرتے ہوئے ’واٹر کِٹ‘ کو ایک ممکن منصوبہ قرار دیا۔
تاہم کئی نامور سائنسدانوں نے اس ’واٹر کِٹ ‘ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے علمِ سائنس سے لاعلمی قرار دیا۔
اس کے چند ہفتوں بعد وقار آغا کو میڈیا کوریج ملنی بند ہوگئی ۔ اور وقار آغا بھی پراسرار طریقے سے منظر نامہ سے غائب ہوگئے ۔ پھر نہ کبھی ان کی خبر مین سٹریم میڈیا پر آئی اور نہ ہی کبھی سوشل میڈیا پر انہوں نے کوئی پوسٹ یا وڈیو شئیر کی۔
دوستو !شائد آپ کو بھی یہ سب جھوٹ لگے
لیکن اب جاپان کی ٹیوٹا کمپنی ٹیسلا سمیت سب "ای وی " الیکٹرانک گاڑیوں کی کمپنیوں کی بینڈ بجانے والی ہے۔ ٹویوٹا کمپنی ایک ایسی گاڑی بنا رہی ہے جس میں ہم پانی ڈال کر چلا سکتے ہیں۔
جی ہاں، آپ نے صحیح سنا. اور امکان یہ ہے کہ ایلون مسک کی ٹیسلا سمیت وہ تمام کمپنیاں،جو اس وقت سب سے زیادہ ماحول دوست کار بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے،ان کا کاروبار تباہ ہو سکتا ہے.
کیونکہ ٹویوٹا کا یہ نیا انجن بھی انتہائی ماحول دوست کمبشن انجن ہونے والا ہے۔اس کے ایندھن کے ٹینک میں پانی ڈالا جاتا ہے، لیکن اس کے اخراج سے بھی پانی بخارات کی شکل میں نکلتا ہے۔اور پھر بھی، یہ اتنی ہی طاقت پیدا کرتا ہے جتنا کہ پٹرول یا بجلی کے انجن۔
اس انجن پر اگلی پوسٹ میں بات کریں گے۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اسٹنلیے مئیرز کیا واقعی فراڈ تھا یا جان بوجھ کر کسی سازش کے تحت اس کو منظر عام سے ہٹا دیا گیا۔ اپنی رائے کا اظہار کمنٹ باکس میں ضرور کریں۔ پوسٹ پسند آئی ہوتو لائک ضرور کیا کریں ۔ کیونکہ اس سے مجھے کافی موٹیویشن ملتی ہے۔ شکریہ
0 Comments